ہماری تاریخ میں بہت بڑا نام عبداللہ بن زید رحمت اللہ علیہ کا ہے۔ آپ نے ساری زندگی نکاح نہیں کیا جوانی گزر گئی بڑھاپہ آیا ایک دن بیٹھے حدیث مبارکہ پڑھ رہے تھے تو اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا جنت میں کوئی اکیلا نہیں ہوگا۔ جو نکاح کی عمر میں نہیں پہنچا یا پہنچا کسی وجہ سے نکاح نہیں کیا اور وہ مسلمان ہی مرا تو اللہ مسلمان مردوں اور عورتوں کا جنت میں آپس میں نکاح کر دے گا۔ جب یہ حدیث پاک پڑھی تو دل میں خیال آیا کہ یہاں تو نکاح نہیں کیا جنت میں ہونا ہی ہے تو جنت میں میری بیوی کون ہوگی ؟؟
دعا کی یا اللہ تو مجھے دکھا دے کہ جنت میں میری بیوی کون ہوگی؟ پہلی رات دعا قبول نہیں ہوئی دوسری رات بھی آپ کی دعا قبول نہیں ہوئی تیسری رات دعا قبول ہو گئی خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ کالے رنگ کی عورت ہے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے دیس کے رہنے والی حبشہ کے دیس کی اور وہ کیا کہتی ہے کہ میں میمونہ ولید ہوں اور میں بصرا میں رہتی ہوں۔ پتہ مل گیا آنکھ کھلی حضرت کی تہجد کا وقت ہو چکا تھا نوافل پڑھے نماز فجر باجماعت ادا کی اور سواری لے کر حضرت عبداللہ بن زید بصرہ گئے وہاں لوگوں نے بڑا استقبال کیا حضرت کا نام ہی بہت بڑا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے پوچھا حضرت بتائے کیسے آنا ہوا خیر تو ہے؟ آپ نے پوچھا یار یہ تو بتاؤ یہاں کوئی میمونہ ولید رہتی ہے لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا حضرت آپ اتنے دور سے چل کر میمونہ ولید سے ملنے آئے ہیں ؟
آپ نے فرمایا کیوں اس سے کوئی نہیں مل سکتا کیا ؟حضور وہ تو دیوانی ہے لوگ اسے پتھر مارتے ہیں حضور نے پوچھا کیوں مارتے ہیں حضور کام ہی ایسے کرتی ہے کوئی رو رہا ہو تو اسے دیکھ کر ہنسنے لگتی ہے اور کوئی ہنس رہا ہو تو اسے دیکھ کر رونا شروع کر دیتی ہے اور وہ اجرت پر پیسے لے کر لوگوں کی بکریاں چراتی ہے۔ آج بھی ہماری بکریاں لے کر جنگل میں گئی ہے آپ آرام فرمائیں عصر کے بعد آ جائے گی آپ مل لیجئے گا۔ حضرت نے فرمایا عصر کس نے دیکھی ہے وہ کس سمت گئی ہے لوگوں نے کہا جنگل نہ جائیں بہت خوفناک جنگل ہے۔
آپ نے فرمایا بتاؤ کس طرف گئی ہے؟ لوگوں نے آپ کو بتا دیا آپ فرماتے ہیں میں جنگل نکل گیا۔ جنگل میں گیا تو واقعی جنگل بہت خوفناک تھا جنگلی جانوروں کی بھرمار تھی قدم قدم پر کوئی نہ کوئی چیز کھڑی ہے آپ فرماتے ہیں اس عورت کی شان پر قربان جاؤں کہ وہ اس جنگل میں کس طرح بکریاں چرا رہی ہے شیروں نے اس کی بکریوں کو ابھی تک کھایا کیوں نہیں اتنے درندے ہیں سارے مل کر حملہ کر دیں تو کیا کرے یہ اکیلی عورت کس کس کو روکے گی۔ خیر آپ فرماتے ہیں وہ جگہ جہاں لوگوں نے مجھے بتائی تھی میں وہاں پر پہنچ گیا جب میں وہاں پہنچا تو منظر دیکھ کر میں حیران رہ گیا میمونہ ولید بکریاں نہیں چرا رہی تھی بلکہ اس جنگل میں جائے نماز بچھا کر نوافل پڑھ رہی تھی۔ بکریاں چرانا تو بہانہ تھا یہ تو بہانہ تھا کنارہ کشی کا لوگ یہی سمجھتے تھے میمونہ سارا دن بکریاں چراتی ہے لیکن میمونہ بکریاں نہیں چرا رہی تھی۔
دوسرا کیا دیکھا کہ میمونہ تو نماز پڑھ رہی ہے پھر بکریاں کون چرا رہا ہے آپ فرماتے ہیں میمونہ نماز پڑھ رہی تھی اور شیر بکریاں چرا رہے تھے بکریاں چر رہی ہیں شیر ان کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اگر کوئی بکری بھاگتی ہے تو اس کی فطرت ہے شرارت کرنا تو شیر اسے پکڑ کر واپس لے آتا ہے لیکن کہتا کچھ نہیں۔ آپ فرماتے ہیں میں حیران و پریشان کھڑا تھا کہ یہ کیسے ہو گیا یہ فطرت کیسے بدل گئی لوگ کہتے ہیں فطرت نہیں بدلتی یہ شیروں اور بکریوں میں یاری کیسے ہو گئی؟ آپ فرماتے ہیں میں دنگ حیران و پریشان کھڑا ہوں مجھے نہیں پتہ کہ کب میمونہ ولید نے نماز ختم کر دی اور مجھے مخاطب کر کے کہتی ہے اے عبداللہ ملنے کا وعدہ تو جنت میں تھا آپ یہاں آگئے۔
آپ فرماتے ہیں میں حیران رہ گیا اس سے پہلے تو کبھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی تو اس کو میرا نام کیسے پتہ چل گیا فرماتے ہیں میں نے حضرت میمونہ سے سوال کیا اس سے پہلے ہم نے ملاقات نہیں کی تو آپ کو میرا نام کیسے پتہ چلا؟ جواب ملا حضرت میمونہ ولید فرماتی ہیں عبداللہ جس اللہ نے رات کو تجھے میرے بارے میں بتایا ہے اسی اللہ نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا ہے. حضرت میمونہ ولید سے پوچھا اب یہ تو بتاؤ یہ شیروں نے بکریوں کے ساتھ یاری کیسے کر لی یہ تو غذا ہے ان کی اگر شیر بکریوں کے ساتھ یاری کریں گے تو کھائیں گے کیا؟ یہ معاملات کیسے ہو گیا ؟
حضرت میمونہ ولید فرماتی ہیں جب سے میں نے اللہ سے صلح کر لی ہے اس دن سے ان شیروں نے میری بکریوں کے ساتھ صلح کر لی ہے۔