خواب انسانی زندگی کا وہ حصہ ہے جو حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام کے اس دنیا میں آنے کے بعد سے ہی ہمارے ساتھ منسلک ہیں۔
خواب کی حقیقت کیا ہے؟ وہ یہ کیوں آتے ہیں؟ یہ ہم انسانوں کے لیے صدیوں سے ایک پراسرار سوال رہا ہے خواب کے متعلق زمانے قدیم سے لے کر اب تک سینکڑوں نظریات پیش کیے گئے لیکن اب تک ہم کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکے کہ خواب کی یہ دنیا جھوٹ ہے یا حقیقت اور نہ ہی خواب کی صحیح تشریح آج تک ممکن ہو سکی ایک نظریہ کے مطابق نیند کی حالت میں روح انسان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے لیکن دماغ کے ساتھ اس کا تعلق قائم رہتا ہے اور روح جہاں جاتی ہیں جو کرتی ہیں اس کی تمام انفارمیشن دماغ کو ملتی رہتی ہیں جو انسان کو خواب کی صورت میں دکھائیں دیتا ہے۔
تاریخ انسانی میں خواب کے متعلق سب سے پہلے اہل یونان نے اپنے نظریات پیش کیے۔ قدیم یونانی خواب کو الہام کا درجہ دیا کرتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ دیوتاانسان کے خواب میں خود ہی آتے ہیں اور اس کو علاج کا طریقہ بتاتے ہیں یونان میں خواب کی تعبیر بتانے والے ماہرین بھی ہوا کرتے تھے ۔سخرات کا یہ عقیدہ تھا کہ نیک لوگوں کے خواب خالص اور الہامی ہوتے ہیں جن میں کوئی پیغام پشیدہ ہوتا ہے۔
قدیم بابل میں بھی خواب کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ بابلی لوگوں نے خواب کی تعبیر کے لیے باقاعدہ کتابیں لکھی تھی کہتے ہیں کہ ان میں ایک شخص بابل کے مندر میں روز سویا کرتا تھا اور مخیر سے دعا کرتا تھا۔ مخیر ان کے مطابق خواب کا دیوتا تھا جو سونے کے بعد خواب میں آ کر ان سے ہم کلام ہوتا تھا۔
مصر کی بات کی جائے تو قدیم مصری لوگ خواب کو ایک اہم حیثیت دیتے تھے۔ فرعون کے وقت خواب کے ذریعے دیوتاوں سے مدد طلب کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جادو کے ذریعے بھی خواب دیکھنے کا طریقہ مصریوں میں مشہور تھا۔ قدیم مصریوں نے اپنے محلوں میں ایسے کمرے بھی بنائے تھے جہاں جا کر وہ سوتے اور خواب میں اپنے دیوتاوں سے مشورہ لیا کرتے تھے۔
اگر یہودی مذہب کی بات کریں تو ان کی کتابوں میں بے شمار خواب کے تذکرے ملتے ہیں جن میں یعقوب اور یوسف علیہ السلام کا خواب، فرعون کا خواب اور دانیال نبی کا خواب شامل ہے۔
کہتے ہیں کہ بن اسرائیل کے چوبیس آدمی ہمیشہ بیت المقدس میں موجود رہتے تھے جو ماہرین خواب تھے یہودی فرقے کی ایک شاخ جسے قبائلس کہا جاتا ہیں اور جو قبائل جادو کے ماہرین ہوتے ہیں ان کی کتابوں میں خواب کو ایک تصویر کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے جس میں گول دائرے کے اندر چودہ دائرے ہوتے ہیں جن میں سب سے اندرونی دائرے سے سب سے بیرونی دائرے تک ایک کھلا رستہ بنا ہوتا ہے یعنی انسان اور خدا کے درمیان ایک براہ راست راستہ جو خواب کے ذریعہ کھلتا ہے۔
قرآن مجید کے اندر کل آٹھ خواب بیان ہوئے ہیں جن میں حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کو نہایت ہی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ خواب کو مومن کے لئے ایک بشارت قرار دیا گیا ہے لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نبوت ختم ہو گئی اب میرے بعد نبوت نہ ہوگی مگر بشارتیں ہوں گی۔ صحابہ نے پوچھا بشارتیں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خواب جو آدمی خود دیکھے یا اس کے لئے دیکھا جائے۔
احادیث کے مطابق خواب کے تین حصے ہوتے ہیں بعض خواب شیطان کی طرف سے مومن بندے کو پریشان کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ خواب جو انسانی ذہن کی سوچوں اور خیالوں کا نتیجہ ہوتا ہے اور تیسرا خواب فرشتے کی طرف سے ہوتا ہے جس میں کوئی پیغام یا آئندہ آنے والے واقعات کی بشارتیں موجود ہوتی ہیں۔
ایک مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نبوت کا چھائیلس وحصہ خواب ہے۔ لہٰذا خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا سچے اور پاکیزہ خوابوں کی شکل میں ہوئی تھی۔ آپ خواب میں جو کچھ بھی دیکھتے وہ سچا ثابت ہو جاتا۔
روایتوں کے مطابق فجر کی نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عموماً اپنے صحابہ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جایا کر تے اور پوچھا کر تے کہ کیا آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو وہ اسے بیان کر دیتا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر بیان کرتے تھے۔