ابلیس کون تھا؟؟ ابلیس کیسے مرا؟؟ ابلیس کے والدین کون تھے؟؟

ابلیس کون تھا؟؟ ابلیس کیسے مرا؟؟ ابلیس کے والدین کون تھے؟؟
اللہ پاک نے انسان کو مٹی اور جنات کو آگ سے پیدا کیا جب اس دنیا کے پہلے انسان یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا گیا تو سبھی فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اس میں ابلیس یعنی شیطان بھی شامل تھا لیکن ابلیس نے انہیں سجدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ ابلیس کے مطابق وہ آگ سے بنا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا گیا تھا۔

اس کی نافرمانی کی وجہ سے اسے قیامت تک ملعون قرار دے دیا گیا لیکن ابلیس تھا کہاں؟ کہاں سے آیا تھا؟ اور اس کے والدین کون ہیں؟ اور ایک جن ہونے کے باوجود یہ فرشتوں کا سردار کیسے بن گیا؟ ابلیس کے والد کا نام جلیبہ تھا اس کا چہرہ ایک شیر کی طرح تھا اور وہ بہت زیادہ بہادر تھا اسی لیے اسے شاشین کا لقب دیا گیا تھا شاشین کا مطلب دل دہلا دینے والے کے ہیں شاشین کو جنات میں سب سے زیادہ بہادر مانا جاتا تھا۔

اس لیے ہر کوئی اس کا احترام کرتا تھا اس نے اپنی بہادری اور طاقت سے جنات کی کئی اقوام کو فتح کیا تھا ابلیس کی والدہ کی شکل ایک بھیڑیے کی مانند تھی یہ بھی اپنے شوہر ہی کی طرح اپنی بہادری کے لیے بہت زیادہ مشہور تھی اس نے اپنے خاوند کے ہمراہ بہت سی جنگوں میں بھی حصہ لیا تھا جنات کی قوم کا ماننا تھا کہ ان دونوں میاں بیوی کے ہوتے ہوئے جنات کی اس قوم کا کوئی بال بھی باکا نہیں کر سکتا جب ان جنات کی بغاوت حد سے بڑھ گئی تو اللہ پاک نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ جا کر جنات کے اس گروہ کا خاتمہ کر دیں۔

 

 

ابلیس نے اس بارے میں خود بتایا کہ اس کی والدہ اس بہادری کے ساتھ فرشتوں سے لڑی کہ مجھے لگ رہا تھا کہ فرشتوں نے میری ماں کے ساتھ مقابلہ کر کے اپنی زندگی کی سب سے بڑی بھول کی ہے لیکن نہ جانے کیسے ہماری جیت ہار میں تبدیل ہو گئی اور ایک ایک کر کے میرے والدین سمیت میری بیوی اور بیٹا بھی مارے گئے فرشتوں اور جنات کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے جنات کا فرشتوں سے کوئی مقابلہ نہیں ہے چونکہ ابلیس کے والد کا چہرہ شیر جیسا اور والدہ کا چہرہ بھیڑیا کی مانند تھا اسی لیے ابلیس میں دونوں خصوصیات موجود ہیں جیسے شیر کی طرح خوددار یاور جبکہ بھیڑیے کی طرح سے خود غرضی اور فریبی۔

جنات اور فرشتوں کی اس جنگ میں جن جنات کو قیدی بنایا گیا ان میں ابلیس بھی شامل تھا اللہ پاک نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ اس کی اچھے سے تربیت کرو اور اسے دنیا و جہان کو سمجھنے اور اپنے خالق حقیقی کی عبادت کرنے کا درس دو سارا علم حاصل کرنے کے بعد اسے فرشتوں کا سردار بنا دیا گیا جو فرشتے اسے علم سکھاتے تھے وہی اس سے علم حاصل کرنے لگے یہاں تک کہ اللہ پاک نے اس کے درجوں کو اس قدر بلند کر دیا کہ ساتویں آسمان پر اس کے چرچے شروع ہو گئے پہلے آسمان والے اسے عابد پکارتے دوسرے آسمان والوں نے اسے زاہد کہتے تیسرے آسمان والوں نے عارف پکارتے چوتھے آسمان والے اسے ولی کہتے پانچویں آسمان والے تقی کہتے چھٹے آسمان والے حاشے ساتویں آسمان والے اسے عزازیل کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔
اس نے اپنی عبادت سے خدا تعالی کی بارگاہ میں اپنے آپ کو ایک اچھے درجے پر فائز کر لیا تھا لیکن خدا تعالی کو اس بارے میں بہتر پتہ تھا کہ یہ آگے چل کر کیا بننے والا ہے اسی لیے اللہ پاک کا فرمان ہے کہ میں جسے چاہتا ہوں اسے عزت دیتا ہو اور جسے چاہتا ہوں ذلت دیتا ہوں ایک دن اپنے معمول کے مطابق ابلیس ساتویں آسمان پر اللہ پاک کی ثنا میں مصروف ہو کر سیر کرتے ہوئے لوح تک جا پہنچا یہ وہاں دیکھتا ہے کہ اس پر لکھا ہوا ہے کہ ہمارا ایک بندہ ایسا بھی ہے جسے ہم ہزاروں نعمتوں سے نوازیں گے زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیں گے یہاں تک کہ جنت میں داخل کر دیں گے لیکن ہم اسے ایک حکم دیں گے جس کا وہ انکار کر کے بغاوت کر بیٹھے گا۔

اس نے لوح محفوظ میں مزید اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم واضح الفاظ میں لکھا ہوا بھی پڑھا تھا ابلیس اس عبارت کو پڑھ کر 2 ہزار سال تک روتا رہا کہ آخر ایسا کون بدبخت ہوگا جو اللہ پاک کے حکم کی نافرمانی کرے گا اس کشمکش میں یہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی مولا بھلا ایسا احسان فراموش کون ہو سکتا ہے جو تیرے حکم کی نافرمانی کرے گا جسے شیطان کا نام دے کر اس سے پناہ مانگی گئی ہے۔

اللہ پاک نے ابلیس کو بتایا کہ ایک شخص ایسا بھی ہوگا جو ہزاروں نعمتیں حاصل ہونے کے باوجود ہمارے ایک حکم کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے دنیا جہان میں رسوا ہوگا ابلیس نے کہا کہ مولا میں اس کو دیکھنا چاہتا ہوں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ تو اسے جلد ہی دیکھے گا ہزاروں سال شیطان اس شخص سے ملنے کی آرزو کرتا رہا اسی دوران اسے خبر ہوئی کہ زمین کی مٹی سے ایک پتلا تیار کیا جا رہا ہے جس کا نام آدم ہے آخر کار وہ دن آگیا جب حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنا کر ان میں روح پھونک کر انہیں زندہ کیا گیا اور تمام فرشتوں کو یہ حکم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تمام فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا لیکن ابلیس نے اپنی انا میں آ کر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں اس سے افضل ہوں میں اسے سجدہ نہیں کروں گا۔

اللہ پاک نے پھر اسے بتایا کہ لوح محفوظ پر جس شیطان کے بارے میں لکھا ہے وہ تو ہی ہے تو نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے اسی لیے قیامت تک تو ذلیل و رسوا ہوتا رہے گا اور لوگ تجھ پر لعن طعن ہی کرتے رہیں گے اللہ پاک نے ابلیس کو قیامت تک کے لیے مہلت دی ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے اسے بالکل کچھ بھی نہیں کہا جائے گا لیکن بروز قیامت اس کو بھی موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اس کی موت دردناک ہوگی جس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا اس سے پہلے قیامت کے مناظر کے بارے میں آپ کو بتاتے چلیں کہ قیامت کب اور کیسے آئے گی؟؟

ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قیامت کی چند نشانیوں کے بارے میں ہمیں آگاہی دی ہے جن کے مطابق قیامت کے دن سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا اس وقت زیادہ تر لوگ اپنے روزمرہ کام کر کے سو جائیں گے اور رات ہو جائے گی یہ رات تین راتوں کے برابر ہوگی لوگ اپنی نیند مکمل کر کے اٹھ جائیں گے لیکن رات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے گی اسی عالم میں سورج مغرب سے طلوع ہوگا اور کچھ دیر بعد دوبارہ غروب ہو کر مشرق سے طلوع ہوگا قیامت کا یہ منظر دیکھ کر شیطان زار و قطار رونے لگ جائے گا اور چلائے گا کہ ہائے میری موت کا وقت آگیا اس کے چیلے اس کا یہ حال دیکھ کر اسے دریافت کریں گے کہ آخر کیا وجہ ہے؟؟

آج سے پہلے ہم نے تمہیں اتنا غمگین اور ڈرا ہوا نہیں دیکھا ابلیس اپنے چیلوں سے کہے گا کہ آخر کار سورج مغرب سے طلوع ہو گیا ہے جو میری موت کی نشانی ہے ابن قیس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے ملنے کے لیے میں مدینہ منورہ پہنچا تو ایک جگہ علم کی محفل لگی ہوئی تھی جس میں حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ کچھ فرما رہے تھے میں بھی کچھ علم حاصل کرنے کے ارادے سے وہیں بیٹھ گیا حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام اپنی وفات کے وقت اللہ پاک سے عرض گزار ہوئے کہ اے اللہ پاک میری موت سے میرا دشمن شیطان بہت زیادہ خوش ہو جائے گا کیونکہ وہ قیامت تک زندہ رہے گا تو اس پر جواب آیا کہ اے آدم علیہ السلام تو موت کے بعد جنت میں چلے جاؤ گے۔

لیکن ابلیس قیامت تک دنیا میں اس لیے رہے گا تاکہ بروز قیامت اس نے جتنے لوگوں کو گمراہ کیا ہوگا ان کے حساب سے اسے موت کی تکلیف کو برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ جواب سن کر حضرت آدم علیہ السلام نے ملک الموت سے سوال کیا کہ آخر ابلیس کی موت کیسی ہوگی؟ اس کے بارے میں ذرا مجھے بھی بتاؤ جس پر ملک الموت نے ابلیس کی موت کے بارے میں بتانا شروع کیا تو حضرت آدم علیہ السلام اس کی موت کا سن کر اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ انہوں نے ملک الموت سے فرمایا کہ بس اب اس سے آگے مجھے کچھ مت بتاؤ یہاں تک بتا کر حضرت کعب رضی اللہ تعالی عنہ بھی خاموش ہو گئے لیکن لوگوں نے اصرار کیا کہ ہمیں ابلیس کی موت کے بارے میں بتائیں تو انہوں نے پھر سے بتانا شروع کیا کہ قیامت کے دن لوگ اپنی عام زندگیوں میں مصروف ہوں گے کہ اچانک ایک بہت ہی زوردار دھماکہ ہوگا اس دھماکے کے خوف سے بہت سے لوگ مر جائیں گے یا بے ہوش ہو جائیں گے اس کے بعد اللہ پاک ملک الموت سے فرمائیں گے کہ میں نے مددگار فرشتوں کو سب سے زیادہ تمہارا معاون بنایا تمہارا معاون بنایا اور تمہیں ان سب کے برابر قوت و طاقت عطا فرمائی۔ آج میرے غصے اور غضب کا لباس پہن کر جاؤ اور ابلیس کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں اور جنات کی روحوں کو بھی قبض کر کے لے آؤ۔

اس موقع پر اللہ پاک کے حکم سے جہنم کے تمام دروازے کھول دیے جائیں گے ملک الموت اپنے غیض و غضب میں اپنے فرشتوں کے ساتھ اس طرح زمین پر اتریں گے کہ اگر عام لوگ انہیں دیکھ لیں تو ڈر کے مارے وہیں پر اپنی جان دے دیں ملک الموت جب ابلیس کے پاس اس کی روح قبض کرنے جائیں گے تو ابلیس زار و قطار چیخیں مار مار کر روئے گا اور ملک الموت سے بچنے کے لیے یہاں وہاں بھاگنا شروع کر دے گا یہ کبھی سمندر کی گہرائیوں میں چھپے گا اور کبھی زمین کی ساتویں تہہ میں لیکن یہ جہاں بھی جائے گا ملک الموت وہیں پہنچ جائیں گے۔

ابلیس تھک ہار کر اپنی موت کے لیے مقرر کردہ جگہ پر پہنچ کر ملک الموت سے سوال کرے گا کہ تم مجھے کہاں لے کر جاؤ گے تو ملک الموت جواب دیں گے جہاں تمہاری وجہ سے کئی مسلمان چلے گئے ہیں تو نے بہت لوگوں کو گناہوں میں مبتلا کر کے جہنم میں بھیجا ہے آج تیرا بھی حساب ہوگا آج تجھے اس قدر درد ملے گا جتنا تو نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ تیری روح قبض کرتے وقت جہنم میں جتنے بھی لوگ موجود ہیں ان کے برابر تجھے تکلیف دوں گا اس وقت ابلیس حضرت آدم علیہ السلام کی قبر پر کھڑا ہو کر کہے گا اے آدم کاش تم اس دنیا میں پیدا نہ ہوتے تو نہ ہی آج میں ملعون بنتا جس جگہ ابلیس کی موت مقرر ہوگی وہ جگہ آگ سے دہکتی ہوگی اور جہنم کی بیڑیاں لگی ہوئی ہوں گی ان بیڑیوں سے ہی اس کو تڑپا تڑپا کر اس کی روح کو قبض کیا جائے گا۔

حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا علیہ السلام سے کہا جائے گا کہ اپنے دشمن کی طرف دیکھو کہ کس طرح تڑپ تڑپ کر مر رہا ہے یہ دونوں ابلیس کی حالت کو دیکھ کر شکر کریں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ پاک تو ہی انصاف کرنے والا ہے تو نے آج ابلیس کو اس کے انجام تک پہنچا دیا ہے اور اس طرح ابلیس کی موت واقع ہو جائے گی۔