اللہ رب العزت نے قران مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا:
“اور ان کے اگے آڑ ہے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے” یعنی قیامت کے دن تک آڑ ہے پردہ ہے۔انسانی زندگی کی آخری سیڑھی موت ہے جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو وہ دنیا سے چلا جاتا ہے تو وہ عالم دنیا سے عالم برزخ کی طرف سفر کرتا ہے جو موت کا عالم ہے موت کے بعد جو زندگی ہے اسے عالم برزخ کہا جاتا ہے یا قبر کی زندگی کہا جاتا ہے۔
اس کے بارے میں سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے گڑھا ہے اور محدثین اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں کہ انسان اگر مسلمان ہے اگر مومن ہے نیک اعمال کرنے والا ہے تو اس کی قبر جنت کے باغوں میں سے باغ ہے اور اگر کافر ہے یا مشرک ہے یا اس کے اعمال برے ہیں تو اس کی قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے اور محدثین فرماتے ہیں کہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جب بندہ قبر میں جاتا ہے تو قبر میں منکر اور نکیر آ جاتے ہیں اس سے سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے تیرا دین کیا ہے اور تو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں کیا کہتا تھا؟؟
تو اگر اس نے کہا کہ میرا رب اللہ ہے میرا دین اسلام ہے اور یہ میرے نبی ہیں تو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اس کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنا دیا جاتا ہے اس کی قبر میں جنت کی ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اگر اس نے سوالوں کے جواب نہ دیے رب کے بارے میں نہ بتا سکا دین کے بارے میں نہ بتا سکا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں نہ بتا سکا تو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جہنم کی ایک کھڑکی کھل جاتی ہے اور اسے جہنم کا عذاب شروع ہو جاتا ہے۔تو قبر ہی عذاب ہے اور قبر ہی جزا ہے اور اسے برزخ کا عذاب کہا جاتا ہے یا برزخ کے انعامات کہے جاتے ہیں تو برزخ میں انسان اپنے اعمال کی وجہ سے یا تو اللیین میں ہوگا یہ اعلی مقام ہے یہ نیک لوگوں کا مقام ہے یا وہ سدین میں ہوگا سدین یہ بروں کا مقام ہے گناہ گاروں کا مقام ہے تو جس نے نیکی کی ہوگی نیکیاں کی ہوں گی اس کا مقام الیین میں ہوگا اور جس نے گناہ کیے ہوں گے اس کا مقام سدین میں ہوگا۔
اور برزخ کو آپ اس طرح سمجھیں کہ جس طرح کسی کو تھانے میں لایا گیا اور اس کا اعمال نامہ اسے دیکھا گیا کہ اس نے کیا گناہ کیا ہے کیا جرم کیا ہے تو اگر اس نے کوئی چھوٹا جرم کیا ہو یا اس نے جرم نہ کیا ہو اسے ویسے ہی اگر لے کے گئے تو اسے کہا جائے گا اسے گیسٹ ہاؤس میں رکھو اسے ریسٹ ہاؤس میں رکھو یعنی اس پر انعامات ہوں گے اسے جزا ملے گی سزا نہیں ملے گی۔ اور اگر تھانے میں کسی بندے نے جرم کیا اور اس کا جرم ثابت ہو گیا اسے حوالات میں رکھا جائے گا اور کہا جائے گا اسے سزا دو یعنی اسے بدبو آئے گی حبس ہوگی گرمی ہوگی تو اسی طرح جو عالم برزخ ہے عالم قبر ہے اس میں انسان کے اعمال نامے کو دیکھا جائے گا۔
اگر اس نے نیکیاں کی ہیں تو اس کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دی جائے گی اور اگر اس نے گناہ کیے ہیں تو اس کے لیے جہنم کی کھڑکی کھول دی جائے گی۔ ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوگا حتمی فیصلہ قیامت کے دن ہوگا اور یہ فیصلہ اس لیے بھی نہیں ہوگا کہ ابھی اس کے اعمال بڑھتے ہیں سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جس نے کوئی نیکی کی نیکی کا حکم دیا کوئی مدرسہ بنایا کوئی کتابیں لکھیں کوئی درخت لگایا کوئی ہاسپٹل بنایا ایسا نیکی تو جب وہ بندہ فوت ہو جاتا ہے تو پھر بھی اس کے نامہ اعمال میں نیکی لکھی جاتی ہے اور جس نے کوئی گناہ کیا اور وہ گناہ اس کے بارے میں بعد میں بھی جاری ہے تو اس گناہ کا بھی اسے اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا تو ابھی نہ گناہ ختم ہوئے ہیں نہ نیکیاں ختم ہوئی ہیں تو حتمی فیصلہ قیامت کے دن ہوگا وہ دونوں انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب قیامت آئے گی اور جب قیامت آئے گی تو پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنتی جنت میں چلے جائیں گے دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے۔
تو برزخ یہ عالم برزخ وہ عالم ہے جس میں لوگوں کا حساب اور کتاب تو نہیں ہوتا لیکن انہیں سزا اور جزا شروع ہو جاتی ہے۔